★ســبــق آمـــوز کــہـــانــیـــاں★
نفسیاتی جنگ ۔۔۔۔۔ ایک خاموش قاتل
(1950 – 1953) میں امریکہ کی کوریا سے جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی فوج کے ایک ماہر نفسیات جنرل ولیم مایر نے جنگوں کی تاریخ کے ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلے پر ریسرچ کیا۔
تفصیل یوں ہے کہ کوریا کے ساتھ جنگ میں امریکہ کے تقریبا ایک ہزار فوجی گرفتار کیے گئے، ان گرفتار فوجیوں کو ایک ایسے کیمپ میں قید کرکے رکھا گیا جہاں عالمی پیمانے کی جیلوں جیسی سہولیات موجود تھیں۔ چنانچہ اس جیل میں عالمی قوانین کے مطابق قیدی کے ساتھ سلوک کیا جاتا تھا اور قیدی کیلئے ساری سہولیات مہیا کی جاتی تھیں نیز یہ جیل دوسری جیلوں کی طرح اونچی دیواروں سے گھیری ہوئی نہیں تھی بلکہ قیدی جیل سے بھاگ بھی سکتے تھے، یہی نہیں بلکہ کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی سے لیکر دیگر ساری سہولیات کا بھرپور انتظام تھا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ دوسری جیلوں کی طرح یہاں سزا دینے کے مختلف طریقے نہیں اپنائے جاتے تھے۔
لیکن تعجب کی بات یہ تھی کہ اتنی ساری سہولیات اور انتظامات کے باوجود اس جیل میں مرنے والے قیدیوں کی تعداد دوسری جیلوں سے زیادہ ہوتی تھی۔ واضح رہے یہ اموات جیل سے بھاگنے کے نتیجے میں نہیں ہوتی تھی کیونکہ قیدی وہاں سے بھاگنے کی سوچ بھی نہیں سکتے تھے بلکہ یہ ان کی فطری موت ہوتی تھی۔ بہت سے قیدی رات کو سوتے اور صبح ہوتی تو وہ موت کی آغوش میں جا چکے ہوتے۔ حالانکہ ان قیدیوں کے آپس میں دوستانہ تعلقات تھے اگرچہ ان کے فوجی مرتبے اور گریڈ مختلف تھے یہاں تک کہ جیلر کے ساتھ بھی ان کے اچھے تعلقات بن چکے تھے۔
اس مسئلے پر کئی سالوں کی ریسرچ اور تحقیق کے بعد ماہر نفسیات مائر اپنی کوششوں اور معلومات کی روشنی میں جس نتیجے پر پہنچا وہ کچھ اس طرح تھے:
1- ان قیدیوں کو صرف اور صرف مایوس کن بری خبریں اور تکلیف دہ پیغامات پہنچائے جاتے تھے۔
2- جیل میں قیدیوں سے کہا جاتا تھا کہ وہ اپنی زندگی کے تلخ واقعات میں سے کوئی ایک واقعہ سارے لوگوں کے سامنے بیان کریں جیسے کسی کے ساتھ خیانت اور بدعہدی یا کسی دوست یا عزیز کے ساتھ دھوکا دینے کا کوئی واقعہ۔
3- ان سے یہ بھی کہا جاتا کہ جیل میں جو اپنے ساتھیوں کی جاسوسی کرے گا اسے انعام سے نوازا جائے گا جیسے سگریٹ وغیرہ۔ اور مزے کی بات یہ تھی کہ جیل کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر کسی کو کوئی سزا نہیں دی جاتی جب کہ خلاف ورزی کا علم دوسرے ساتھیوں کی شکایت سے ہو جاتا تھا۔ اس سے سارے قیدیوں کو ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی کرنے کی شہ مل گئی اور پھر ان لوگوں کو اس طرح جاسوسی کرنے کی عادت سی پڑگئی۔ اب انھیں جاسوسی کرنے پر اپنے ضمیر کی ملامت کا کوئی احساس نہیں ہوتا کیوں کہ اس سے انہیں کوئی خطرہ لاحق ہونے کا خوف نہیں تھا۔
تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہی وہ تین چیزیں تھیں جن سے وہ فوجی قیدی نفسیاتی طور پر شکست خوردہ ہو کر موت کا نوالہ بن جاتے ہیں :۔
1- مایوس کن اور بری خبریں سننے کی عادت۔ ایسی خبریں سن سن کر ان کے پاس اپنی رہائی اور آزادی کی کوئی امید باقی نہیں بچی تھی۔
2- اپنے ہی دوست و احباب کے ساتھ خیانت و بدعہدی اور دھوکے بازی کے واقعات لوگوں کے سامنے بیان کرنے کے نتیجے میں ان کے اندر خود اپنا احترام اور دوسروں کا احترام ختم ہو گیا۔
3- اپنے ہی ساتھیوں کی جاسوسی کرنے کی وجہ سے ان کی عزت نفس اور خود داری بھی جاتی رہی اور وہ اپنے آپ کو حقیر اور دوسرے کا آلہ کار سمجھنے لگے۔
یہ تین چیزیں ان کی زندگی کو برباد کرنے اور خاموشی سے انہیں موت کے منہ تک پہنچانے کے لئے کافی تھیں۔
اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے اور ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ
👈اگر آج ہم بھی صرف اور صرف مایوس کن اور بری خبریں سنتے اور پڑھتے ہیں
👈اور ہمیں اپنی عزت نفس اور خودداری کا خیال نہیں
👈 اور ہم ایک دوسرے کو گرانے اور نیچا دکھانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں
⚠ تو سمجھ لیجیے کہ آج ہم خود خاموش عذاب کی زندگی جی رہے ہیں۔
آج دشمن چن چن کر مایوس کن اور بری خبریں ہم تک پہنچا رہے ہیں اور ہم بغیر سوچے سمجھے انہیں پڑھ اور سن رہے ہیں مثلا:
مہنگائی بہت زیادہ ہے ....
بے روزگاری بڑھ رہی ہے.....
فلاں جگہ ایک اسکول جل کر خاکستر ہو گیا.....
فلاں جگہ کچھ لوگ قتل کر دیے گئے......
وغیرہ وغیرہ.........
کیا ہمیں اپنی عزت نفس کا خیال ہے؟؟؟
دشمن بار بار ہم سے کہلوا رہے ہیں کہ:
👈 اہل عرب / مسلمان بیکار ہیں
👈اہل عرب / مسلمان بیوقوف ہیں
👈اہل عرب / مسلمان ترقی نہیں کرسکتے
👈اہل عرب / مسلمان بےحس ہو چکے ہیں۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہم خود شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک دوسرے کو گالی گلوچ دیتے ہیں اور ایک دوسرے پر پھبتیاں کس کر مزے لیتے ہیں۔
دشمنوں نے ہمارے اندر علاقائیت کا تعصب بھردیا ہے کہ ہم اس بنیاد پر ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے اور برا بھلا کہتے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ لوگ اہل عرب پر پھبتیاں کستے نظر آتے ہیں مگر ہمیں دشمنوں کی سازشوں کا کوئی احساس نہیں جس نے ہماری حالت یہ بنا ڈالی ہے کہ ہم بغیر قید خانے کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں۔
لہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ
1- ہم صرف اور صرف بری اور مایوس کن خبریں سننے سے پرہیز کریں اور افواہوں پر بالکل کان نہ دھریں اور ہم اپنے اندر اور اپنے اردگرد بسنے والوں کے اندر بہتر مستقبل کی امید کا دیا روشن کریں۔
2- تمام تر اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کریں اور دشمنوں کے خلاف متحد ہونے کا عزم کریں۔
3- اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات اور اس کی نصرت و توفیق پر بھروسہ کرتے ہوئے ہم اپنے اندر عزت نفس اور خود داری پیدا کریں اور مثبت ذہنیت اور سوچ کے ساتھ زندگی گزاریں۔
اس طرح ہم اس جیل کو توڑ سکتے ہیں جسے دشمنوں نے میڈیا کے ذریعے ہمارے لیے بنا رکھا ہے اور اس میں ہمیں قید کرکے شب و روز مار رہے ہیں اور ہمیں خاموشی سے موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔
عربی سے ترجمہ : محمد شاهد يار محمد سنابلی
🌹🍃🌹🍂🌹🍃🌹🍂🌹🍃🌹🍂🌹🍃🌹🍂🌹🍂🌹🍃🌹🍂
______________